انٹرویو: شام میں تاریکی سے نکلنے کا حقیقی موقع، نجات رشدی
شام کے عوام کو اپنے ملک سے بہت بڑی توقعات وابستہ ہیں اور تمام سماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد ہو کر نیا آئین بنانے کی خواہش رکھتے ہیں جس کا آغاز ایک مشمولہ اور 'قومی مکالمے' سے ہونا ضروری ہے۔
یہ بات شام کے لیے اقوام متحدہ کی نائب خصوصی نمائندہ نجات رشدی نے یو این کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہے۔ وہ ان دنوں شام کے دارالحکومت دمشق میں عبوری حکومت کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں جس کا مقصد کڑے انسانی و معاشی بحران سے نبرد آزما اس ملک کے مستقبل کی تعمیر میں اس کے تمام شہریوں کی شرکت یقینی بنانا ہے۔
وضاحت اور اختصار کے مقصد سے اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔
یو این نیوز: یہ بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد شام میں آپ کا دوسرا دورہ ہے۔ اس مرتبہ آپ نے کون سے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے آپ نے کون سے نتائج اخذ کیے ہیں؟
نجات رشدی: میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے اپنی زندگی میں کچھ ایسا دیکھنے کا موقع ملے گا۔ شام کے لوگوں کی خوشی، امید اور بشاشت دیدنی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ان کی بہت سی توقعات بھی ہیں۔ یہ ان کے وقار سمیت ان تمام چیزوں کی تعمیرنو کا وقت ہے جو تباہ ہو چکی ہیں۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ مستقبل کی تعمیر میں مردوخواتین سمیت سبھی کو ان کے مذہب، قومیت، ثقافت یا جغرافیائی پس منظر سے قطع نظر مساوی نمائندگی ملے۔
سابق حکومت کے دور میں لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ہم ملک میں سماجی ہم آہنگی دیکھنے کے خواہاں ہیں جہاں ہر شہری کی حیثیت، وقار اور آزادیاں مساوی ہوں۔
شام کے عبوری حکام نے اپنے بیانات کے ذریعے ملک کو اس مقام پر لے جانے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے جہاں تمام شہریوں کے مطالبات اور خواہشات کہیں بہتر انداز میں پورے ہو سکیں۔
اپنی ہر ملاقات کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ اب تاریکی سے روشنی کی جانب بڑھنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس ضمن ہم ایک قومی مکالمہ شروع کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اس میں شام کے تمام لوگوں کی نمائندگی ہونا ضروری ہے جنہوں نے یہاں تک پہنچنے کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔

یو این نیوز: شام کے لیے اس اہم ترین وقت میں اقوام متحدہ کا کردار کیا ہے؟
نجات رشدی: ہمیں شام کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے سماجی گروہوں سے رابطہ کرنا ہے۔ ان میں خواتین کے حقوق کے علمبردار، مذہبی علما اور مقامی سطح کے رہنما بھی شامل ہیں تاکہ ان کی ترجیحات، خدشات اور ضروریات کو سمجھا جا سکے۔ یہ سیاسی تبدیلی میں مدد اور تعاون فراہم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
ہماری ترجیحات پہلے ہی واضح ہیں۔ پہلی یہ کہ، ہمیں لاپتہ افراد کا کھوج لگانا ہے۔ ان لوگوں کے خاندانوں سے مل کر ان کا دکھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد ابتداً انہیں امید تھی کہ ان کے عزیز اب بھی زندہ ہوں گے۔ اب یہ امید دم توڑنے لگی ہے لیکن یہ لوگ کم از کم اتنا جاننے کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے پیاروں کی لاشیں کہاں ہیں۔ جب تک انہیں اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا اس وقت تک وہ ان کا غم نہیں منا سکتے اور ان کے زخم بھی مندمل نہیں ہوں گے۔
بچ رہنے والے متاثرین اور ان کے خاندانوں کو احتساب ہوتا دکھائی دینا چاہیے تاہم بدلہ لینے یا انتقامی کارروائی سے گریز کرنا ہو گا۔ ہمیں علم ہے کہ لوگ دل شکستہ ہیں اور اس بے پایاں تکلیف کے باعث ان کے سینوں میں گویا آگ لگی ہے لیکن حقیقی انصاف ہی آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ ہے۔

یو این نیوز: اس وقت شام کو دیگر کون سے بڑے مسائل درپیش ہیں؟
نجات رشدی: میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ سیاسی تبدیلی اس انداز میں ہونی چاہیے جس کی بدولت تمام لوگ خود کو محفوظ اور اس عمل کا حصہ سمجھیں اور اس میں سبھی کی نمائندگی ہو۔
قومی سطح پر سیاسی بات چیت اس حوالے سے پہلا امتحان ہو گا اور یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہو گی کہ اس عمل کے ذریعے ایسے سیاسی فیصلوں کی بنیاد ڈالی جائے جس پر شام کے تمام لوگوں کا مستحکم، خوشحال اور مشمولہ مستقبل تعمیر ہو سکے۔
اس کے بعد، یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ملکی دستور پر نظرثانی کرنے یا نیا آئین لکھنے والوں کا تعلق ملک کے تمام حصوں اور شامی معاشرے کے تمام فریقین سے ہو کیونکہ اس دستور کو تمام لوگوں کے انسانی حقوق اور آزادیوں کا ضامن ہونا چاہیے۔
اس کے بعد، یہ یقینی بنانا ہو گا کہ عبوری حکومت میں کسی کو مخصوص حیثیت نہ ملے۔ مشمولیت کا مطلب کسی خاص گروہ کو خاص حیثیت یا کوٹہ دینا نہیں ہوتا بلکہ اس میں سبھی کو مساوی نمائندگی ملتی ہے۔
عبوری حکومت کو ہر ایک کے ساتھ مساوی حیثیت سے بات کرنا ہو گی، سبھی کو مساوی تحفظ دینا ہو گا اور تمام لوگوں کی ایک ہی انداز میں خدمت کرناہو گی۔ اس میں خواتین کی بات سننا بھی بہت اہم ہے اور اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ ایسا کرنا درست اور منصفانہ ہے بلکہ ملک کی تعمیرنو میں اس کے ہر شہری کا کردار ہونا ضروری ہے۔
آخر میں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ عبوری حکومت کے فیصلے منصفانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات پر منتج ہوں۔
ملک میں جاری شدید انسانی بحران پر قابو پانا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ امدادی وسائل کی قلت ہے اور بنیادی سہولیات و خدمات تک رسائی میں کڑے مشکلات حائل ہیں۔

یو این نیوز: آپ کے شام کی سول سوسائٹی اور خواتین کی تنظیموں سے جامع رابطے رہے ہیں۔ یہ تنظیمیں سیاسی تبدیلی کے عمل میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟
نجات رشدی: گزشتہ دہائیوں میں شام کی خواتین نے اپنے حقوق کے لیے دلیرانہ انداز میں آواز بلند کی ہے۔ یہ تنظیمیں سبھی کے لیے مساوی حقوق اور آزادیوں کی خواہاں ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق یقینی بنانے کی حمایت کریں۔ وہ عبوری حکومت، نئے دستور کی تیاری اور انتخابات کے انعقاد سمیت ہر معاملے میں اپنی نمائندگی چاہتی ہیں۔
شام کے لیےخصوصی نمائندے کے دفتر کی جانب سے 2016 میں قائم کردہ خواتین کے مشاورتی بورڈ کا مقصد سیاسی عمل میں خواتین کے متنوع نقطہ ہائے نظر کو جگہ دینا ہے اور اس بورڈ کا ناصرف ماضی میں بہت اہم کردار رہا بلکہ اب بھی اس کی اہمیت برقرار ہے۔
ہم نے انہیں کہا ہے کہ وہ خواتین کے دیگر گروہوں سے بھی بات کریں کیونکہ آئندہ عبوری دور میں شام کے تمام لوگوں کے اکٹھا ہونے اور باہم مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے کام کرتے ہوئے ہم شام کے عبوری حکام کے علاوہ معاشرے کے تمام طبقات بشمول سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں یا مقامی رہنماؤں کے ساتھ مزید رابطوں کے متمنی ہیں کیونکہ یہ انہی لوگوں کا انقلاب، انہی کی فتح ہے اور یہ انہی کا ملک ہے۔ ہمارا کام انہیں مدد دینا اور جب بھی ضرورت ہو ان کے ساتھ ہرممکن تعاون کرنا ہے۔