انسانی کہانیاں عالمی تناظر
شام کے علاقے ادلب کے ایک زچہ و بچہ مرکز میں طبی ماہرین ہنگامی جراحی کرنے میں مصروف ہیں۔

جانیے کہ خاندانی منصوبہ بندی سے زندگیاں کیسے بچتی ہیں؟

© UNFPA/Abdul Razzaq Zakzouq
شام کے علاقے ادلب کے ایک زچہ و بچہ مرکز میں طبی ماہرین ہنگامی جراحی کرنے میں مصروف ہیں۔

جانیے کہ خاندانی منصوبہ بندی سے زندگیاں کیسے بچتی ہیں؟

صحت

نائجیریا سے تعلق رکھنے والی سکینہ سانی کی شادی 12 برس کی عمر میں اس وقت ہوئی جب ان کا علاقہ مسلح تنازع اور غذائی قلت کا شکار تھا۔ وہ عمر کے 15 ویں سال میں حاملہ ہو گئیں لیکن ان کا حمل قائم نہ رہا جس کے بعد انہوں نے دو بچوں کو جنم دیا۔

انہوں نے جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) کو بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کو ایسے حالات کا شکار نہیں ہونے دیں گی جن کا خود انہیں سامنا کرنا پڑا۔ 

نائجیریا، جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) اور یوکرین جیسے ممالک میں مسلح تنازعات کے باعث لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے اور حمل یا زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث روزانہ کی بنیاد پر خواتین کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

ان حالات میں 'یو این ایف پی اے' بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے کیمپ قائم کر کے وہاں طبی عملے کو تعینات کرتا ہے۔

جب کہیں زلزلے سے تباہی آئے تو ادارہ ہنگامی امدادی قافلوں کے ساتھ مانع حمل اشیا، زچگی میں مدد دینے والا طبی سامان اور حاملہ خواتین کے لیے خون بہنے سے روکنے کی ادویات بھی بھیجتا ہے۔

جب دور دراز جزائر میں رہنے والے لوگ طوفانوں کی زد میں آئیں تو ادارہ جراثیموں سے پاک طبی سازوسامان کی طرح مانع حمل اشیا بشمول کنڈوم، منہ اور انجکشن کے ذریعے لی جانے والی ادویات اور اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والی دیگر چیزیں متاثرہ علاقوں میں روانہ کرتا ہے۔

یہ سب کچھ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مخصوص حالات میں تحفظ زندگی کے لیے مانع حمل اشیا کی دستیابی ضروری ہوتی ہے۔

ہو سکتا ہے یہ بات بعض لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو لیکن طبی سائنس، امداد فراہم کرنے والوں اور خود خواتین کے لیے یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے۔

ہنگامی حالات کے علاوہ بھی جدید اور محفوظ مانع حمل اشیا تک رسائی خواتین کو اپنی تولیدی صحت کے حوالے سے خود فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح ان کے لیے ان چاہے حمل اور غیرمحفوظ اسقاط حمل کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، صحت مند رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور زچہ بچہ کی اموات میں کمی آتی ہے۔

مختصر یہ کہ، خاندانی منصوبہ بندی لاکھوں زندگیاں بچاتی ہے اور اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔

وسطی جمہوریہ افریقہ میں یو این ایف پی اے کی مدد سے چلنے والے مرکز صحت  میں ایک خاتون کو مانع حمل ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔
© UNFPA/Karel Prinsloo
وسطی جمہوریہ افریقہ میں یو این ایف پی اے کی مدد سے چلنے والے مرکز صحت میں ایک خاتون کو مانع حمل ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔

ہنگامی حالات میں حمل اور زچگی کی اموات

اندازے کے مطابق زچگی کی پیچیدگیوں سے 60 فیصد اموات انسانی بحرانوں کے دوران اور نازک حالات میں ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر خواتین کو محفوظ زچگی کے لیے درکار طبی نگہداشت اور غذائیت تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

اچھے حالات میں بھی خواتین کی بڑی تعداد اپنے ساتھی کو جنسی عمل سے انکار نہیں کر سکتی۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق بالغ خواتین کی ایک چوتھائی تعداد کو اپنی مرضی کے خلاف جنسی عمل میں شریک ہونا پڑتا ہے۔

انسانی بحرانوں کے دوران خواتین کے لیے صنفی بنیاد پر تشدد کا خطرہ دو گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جنسی زیادتی کو نسل کشی کے ذریعے اور جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ ازدواجی ساتھی کی جانب سے مار پیٹ کے خطرات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور یوں ان چاہے حمل کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

مہلک طبی پیچیدگیوں کی روک تھام

اگرچہ بعض اوقات اور غلط طور پر مانع حمل اشیا کو نئی اور نقصان دہ چیز قرار دے کر اس پر تنقید کی جاتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ایسی چیزوں کا استعمال صدیوں سے جاری ہے۔ مثال کے طور پر آج سے کئی سو سال پہلے بھی کنڈوم استعمال ہوتے تھے۔

جدید طرز کی مانع حمل اشیا کی بات ہو تو ان کا شمار سب سے زیادہ تجویز کی جانے والی اور ایسی طبی اشیا میں ہوتا ہے جن پر اب تک سب سے زیادہ سائنسی تحقیق ہوئی ہے۔ محض ماہرین ادویات اور طبی محققین نے ہی ان پر کام نہیں کیا بلکہ طبی معاشی ماہرین، وباؤں کی روک تھام کے ماہر اور پالیسی ساز بھی مانع حمل پر مفصل تحقیق کرتے چلے آئے ہیں۔ ان سب لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ اشیا ان چاہے حمل کو روک کر خواتین کی زندگی بچاتی ہیں۔

مگر کیسے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر حمل کے ساتھ کئی طرح کے خدشات بھی وابستہ ہوتے ہیں اور بحرانی حالات میں جب نظام صحت کو نقصان پہنچے اور طبی نگہداشت کمیاب ہو تو خطرہ کہیں بڑھ جاتا ہے۔

یوکرین میں یو این ایف پی اے کی مدد سے صنفی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں ادویات اور دوسرا سامان تقسیم کیا جا رہا ہے۔
© UNFPA/Danil Pavlov
یوکرین میں یو این ایف پی اے کی مدد سے صنفی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں ادویات اور دوسرا سامان تقسیم کیا جا رہا ہے۔

زچگی اور ہنگامی امداد

سمندری طوفان کے بعد یا کسی جنگ زدہ علاقے میں جب کسی خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہو تو کیا ہوتا ہے؟

بحران زدہ جمہوریہ کانگو میں طبی نظام کو نقصان پہنچنے سے زچگی میں اموات کی شرح بڑھ گئی ہے جہاں حمل یا زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث ہر گھنٹے تین خواتین کی موت واقع ہو رہی ہے۔

شمال مغربی شام کے شہر ادلب میں کام کرنے والے ڈاکٹر اکرام حبوش کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں جاری رہنے والی طویل کشیدگی کے دوران بہت سی حاملہ خواتین ضروری طبی مدد کی غیرموجودگی میں ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔

دنیا کی آبادی سے متعلق 'یو این ایف پی اے' کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان چاہے حمل کا زچگی کی بلند شرح اموات سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی اموات میں کمی لانے کے لیے تشکیل دیے گئے ہر طبی پروگرام میں مانع حمل اشیا کی دستیابی اور ان تک رسائی یقینی بنانے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔

مانع حمل اشیا ان چاہے حمل کو روک کر زچگی کے دوران جسمانی زخموں اور بیماری سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں جبکہ مردہ بچے پیدا ہونے اور پیدائش سے فوری بعد بچوں کی اموات کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔

2023 میں 'یو این ایف پی اے' نے دنیا بھر میں 13 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کی مانع حمل اشیا مہیا کیں جن سے اندازاً ایک کروڑ ان چاہے حمل اور زچگی کی دو لاکھ سے زیادہ اموات کو روکنے میں مدد ملی۔ علاوہ ازیں، ان کے ذریعے 30 لاکھ سے زیادہ غیرمحفوظ اسقاط حمل کو روکنا بھی ممکن ہوا۔

انڈیا میں ’خواتین کے ساتھ مکالمہ‘ نامی تنظیم کی کارکن خواتین کے تولیدی حقوق پر آگاہی دے رہی ہیں۔
© UNFPA
انڈیا میں ’خواتین کے ساتھ مکالمہ‘ نامی تنظیم کی کارکن خواتین کے تولیدی حقوق پر آگاہی دے رہی ہیں۔

سنگین اور کہنہ بیماریوں کی روک تھام

مردوں اور خواتین کے کنڈوم جیسی مانع حمل اشیا کی بدولت ایچ آئی وی سمیت جنسی بیماریوں (ایس ٹی آئی) کی منتقلی کے خطرات میں بھی کمی آتی ہے۔

جہاں طبی سہولیات تک رسائی محدود ہو وہاں قابل انسداد ایس ٹی آئی بھی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ ہیٹی اس کی نمایاں مثال ہے جہاں بڑے پیمانے پر اور بے رحمانہ جنسی تشدد کے باعث خواتین اور لڑکیوں میں ایس ٹی آئی کا پھیلاؤ بڑھنے کے ساتھ ان چاہے حمل میں بھی اضافہ ہو گیا ہے جبکہ ملک کا طبی نظام تباہی سے دوچار ہے۔