عالمی فورم کا امن کاری کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر زور
انتظامی حکمت عملی، پالیسی اور اس پر عملدرآمد کے لیے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل کیتھرین پولارڈ نے کہا ہے کہ ادارے کی امن کاری کو 21ویں صدی میں تنازعات کی بدلتی نوعیت کے مطابق ترتیب دینا ضروری ہے۔
قیام امن کی کارروائیوں کے مستقبل پر انڈونیشیا میں منعقدہ دو روزہ عالمی فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امن کاری کی بنیاد اس حقیقت پر ہونی چاہیے کہ آج دنیا کو جتنی بڑی تعداد میں تنازعات کا سامنا ہے اس کی دوسری عالمی جنگ کے بعد کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
ممالک کے مابین اختلافات اور تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے جن کے محرکات سرحدوں سے ماورا ہیں۔ ایسے کئی تناظر میں بین الاقوامی منظم جرائم، قدرتی وسائل کے استحصال، غیرریاستی مسلح گروہوں اور دہشت گردی جیسے مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی ٹیکنالوجی جہاں ان مسائل کو حل کرنے میں مدد دے رہی ہے وہیں اس کے باعث ان میں غلط اور گمراہ کن اطلاعات کے ذریعے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ ان حالات میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کے اقدامات کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
امن کاری اور جدید ٹیکنالوجی
فورم میں 60 سے زیادہ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی اور اقوام متحدہ کے امن کاروں کو درپیش بہت سے مسائل سے نمٹنے کے طریقے تجویز کیے۔ ان میں کسی علاقے میں حالات سے آگاہی اور ذاتی دفاع کے لیے بغیر پائلٹ طیاروں (ڈرون/یو وی اے) کا استعمال، فیصلہ سازی کے طریقہ ہائے کار کو ہموار بنانا، سلامتی کونسل کو غیررسمی طور پر اطلاعات فراہم کرنے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام اور شہری جنگوں کے ماحول میں کام کے لیے بہتر تربیت کا حصول شامل ہیں۔
فورم میں مقررین کا کہنا تھا کہ دور حاضر کے مسائل اقوام متحدہ کی امن کاری کو نئی ضروریات کے مطابق تبدیل کرنے کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔
دفاعی ڈرون طیارے
فورم کے شرکا نے اتفاق کیا کہ امن کاری کو جدید طرز پر استوار کرنے کے لیے ایسی ٹیکنالوجی سے کام لینا ضروری ہے جو امن کے دشمن پہلے ہی استعمال کر رہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے ڈرون بھی شامل ہیں۔
قیام امن کی کارروائیوں کے لیے یوروگوئے کے قومی نظام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کرنل اسماعیل آندرے نے کہا کہ فی الوقت امن کاری کے لیے اقوام متحدہ کے بڑے مشن صرف نگرانی اور معلومات جمع کرنے کے لیے ہی ڈرون کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔ سلامتی کونسل کو چاہیے وہ امن کاروں کو ذاتی دفاع کے لیے بھی ڈرون استعمال کرنے کی اجازت دے کیونکہ انہیں درپیش نئے خطرات کا تعلق ایسے طیاروں سے بھی ہے۔
آزاد تھنک ٹینک 'سلامتی کونسل رپورٹ' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر شمالہ کاندھیا نے فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کو کسی مشن کی کارروائی اور اسے مخصوص کے مطابق ڈھالنے کے طریقوں اور مشن کو درپیش مسائل کے بارے میں باقاعدہ طور سے آگاہ کرنے کے نتیجے میں فیصلہ سازی کی رفتار بڑھ سکتی ہے اور امن کاری کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔
بہت سے ارضی سیاسی تناؤ سلامتی کونسل میں فیصلہ سازی پر اثرانداز ہوتے ہیں لیکن حالات کے بارے میں متواتر آگاہی دینے سے کونسل کو حقائق پر موزوں ردعمل دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

قیام امن کا کم خرچ طریقہ
قیام امن کے لیے اقوام متحدہ مشن دنیا بھر میں دہائیوں پر محیط تجربات کو مدنظر رکھ کر اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو یکجا کرتے ہیں۔
اپنی طویل تاریخ کے دوران یہ مشن تنازعات کے فریقین میں سیاسی بات چیت کی گنجائش پیدا کرنے، امن معاہدوں میں سہولت دینے اور اس حوالے سے ضامنوں کا کردار ادا کرنے، تشدد کا پھیلاؤ روک کر علاقائی استحکام کو بہتر بنانے، شہریوں کو تحفظ دینے، مستحکم قانونی ادارے قائم کرنے اور انتظامی ڈھانچے کی تعمیرنو کے لیے میزبان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی امن کاری کے مستقبل پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مصنف ال غاسم وین نے کہا ہے کہ کئی جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی امن کاری مسلح تنازعات کو روکنے اور امن کو برقرار رکھنے کا کم خرچ طریقہ ثابت ہوئی ہے۔ ہیٹی اور سوڈان جیسے ممالک سے اقوام متحدہ کے امن کاروں کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ان کارروائیوں کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
فورم کے مقاصد
یہ فورم اںڈونیشیا، بنگلہ دیش، نیدرلینڈز اور امریکہ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہوا۔ اس کا مقصد رکن ممالک اور دیگر فریقین کو امن کاری کے مستقبل پر جرمنی میں ہونے والے وزارتی اجلاس سے قبل اکٹھا کرنا ہے۔ اس موقع پر امن کاری کے نئے طریقہ ہائے کار اور ذمہ داریوں کے بارے میں تصورات کا تبادلہ کرنے کے علاوہ اس بارے میں مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
فورم میں وسائل اور رکن ممالک کی صلاحیتوں کی نشاندہی بھی کی جائے گی تاکہ امن کاری کو بدلتے کثیرجہتی مسائل کا مقابلہ کرنے اور مقصد کے حصول کے قابل بنایا جائے۔