افریقہ امکانات اور امید سے لبریز ہے، یو این چیف
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے افریقہ کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ براعظم اور اس کی نوجوان آبادی کی صلاحیتوں سے بہت سی امیدیں اور امکانات وابستہ ہیں۔
ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں افریقن یونین (اے یو) کی اعلیٰ سطحی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور افریقی ممالک کی اس تنظیم کے مابین شراکت اب جتنی مضبوط ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ نوجوان آبادی اور قابل تجدید توانائی کے حصول میں استعمال ہونے والے وسائل ناصرف براعظم بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم اثاثہ ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ افریقی ممالک کے مابین درآمدات و برآمدات پر رکاوٹوں میں کمی لانے کے لیے قائم کردہ آزاد تجارتی علاقے کی بدولت مستقبل میں ترقی و خوشحالی کے مواقع پیدا ہوں گے۔
ازالے اور اصلاحات کا وقت
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ نے اپنے ابتدائی ایام میں نوآبادیات کے خاتمے اور آزادی کے لیے بہت سا کام کیا تاہم اس سے افریقیوں کو درپیش بنیادی مسائل حل نہ ہو سکے جن میں بہت سے استعماریت اور اوقیانوس کے آر پار غلاموں کی تجارت کی میراث تھے اور یہ دونوں بہت بڑی اور شدید ناانصافیاں تھیں۔
20ویں صدی کے وسط میں جب کثیرفریقی نظام بنائے گئے تو اس وقت اقوام متحدہ کے بہت سے موجودہ رکن ممالک بڑی طاقتوں کی نوآبادیات تھے۔ آج دیگر عالمی کثیرفریقی اداروں کی طرح اقوام متحدہ میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے اور سلامتی کونسل میں افریقہ کی نمائندگی نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ افریقن یونین اور تمام رکن ممالک کے ساتھ کام کرتے ہوئے افریقہ کو ادارے میں درکار نمائندگی اور انصاف یقینی بنانے اور سلامتی کونسل میں اسے دو مستقل نشستیں دلانے کے لیے بھی کوشش کرتے رہیں گے۔
سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ موجودہ شکل میں یہ نظام افریقہ کے بہت سے ممالک کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور اس کے باعث وہ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پر حسب ضرورت اخراجات نہیں کر سکتے۔
نقل مکانی اور بھوک کا سب سے بڑا بحران
انتونیو گوتیرش نے امن و سلامتی کو کثیرفریقی اقدامات کے حوالے سے ترجیح قرار دیتے ہوئے سوڈان کے حالات کی جانب توجہ دلائی جہاں نقل مکانی اور بھوک کا سب سے بڑا عالمی بحران جنم لے چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افریقن یونین اور اقوام متحدہ مل کر اس جنگ کو ختم کرا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) کے مشرقی علاقے میں ایم 23 باغیوں کے حملے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ملک میں جاری تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں اور اس پر صرف بات چیت کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملک میں اقوام متحدہ کا امن مشن (مونوسکو) لوگوں کی مدد جاری رکھے گا۔
ترقی اور قابل تجدید توانائی کا انقلاب
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ افریقہ میں صنفی مساوات، ماحول دوست توانائی، نظام ہائے خوراک میں بنیادی تبدیلی اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ترقی کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ رکن ممالک کی جانب سے گزشتہ سال منظور کیے جانے والے مستقبل کے معاہدے میں بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات لانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ موجودہ نظام میں انہیں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں قرضوں کے حصول پر آٹھ گنا زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت امیر ممالک ترقی پذیر معیشتوں کو ہر سال 500 ارب ڈالر مہیا کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی بحران کے باعث افریقہ کو جہاں بہت سی قدرتی آفات کا سامنا ہے وہیں یہ ایسے مواقع بھی لایا ہے جن کی بدولت براعظم عالمی معیشت کو ماحول دوست بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس وقت قابل تجدید توانائی کے حوالے سے صرف دو فیصد بین الاقوامی سرمایہ کاری افریقہ میں ہوتی ہے۔ تاہم مالیاتی اصلاحات کے ذریعے براعظم کو ماحول دوست توانائی کے میدان میں بہت آگے لے جایا جا سکتا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ افریقہ کی تقریباً دو تہائی آبادی کو قابل بھروسہ انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ اور 2035 تک روزگار کی منڈی میں داخل ہونے والے افریقیوں کی سالانہ تعداد دنیا بھر کی مجموعی تعداد سے بھی بڑھ جائے گی۔ اس طرح انہیں ترقی پانے کے لیے ہنر کی ضرورت ہے جس کا حصول بڑی حد تک انٹرنیٹ سے وابستہ ہو گا۔