انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سوڈان: پھیلتی خانہ جنگی میں انسانی حقوق کی بڑھتی پامالیوں پر تشویش

سوڈان میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
© UNICEF/Mohammed Jamal
سوڈان میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

سوڈان: پھیلتی خانہ جنگی میں انسانی حقوق کی بڑھتی پامالیوں پر تشویش

انسانی حقوق

سوڈان میں جاری خانہ جنگی مزید دو علاقوں میں پھیل گئی ہے اور مزید مسلح گروہ اس کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ ملک بھر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بلاروک و ٹوک جاری ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی جانب سے ملک میں حقوق کی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متحارب فریقین گنجان آباد علاقوں، اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کی پناہ گاہوں، طبی مراکز، بازاروں اور سکولوں پر حملے کر رہے ہیں جبکہ لوگوں کو ماورائے عدالت ہلاک کرنے کے واقعات بھی عام ہیں۔

Tweet URL

اس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں حقوق کی پامالیوں پر احتساب یقینی بنانے اور اسلحے کی ترسیل کو روکنے کے لیے اقدامات کرے تاکہ لوگوں کی زندگی کو تحفظ مل سکے۔

رپورٹ کے اجرا پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ متحارب فریقین (سوڈان کی مسلح افواج اور اس کی حریف ریپڈ سپورٹ فورسز) بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سوڈان میں حقوق کی سنگین پامالیاں جنگی جرائم کے مترادف ہو سکتی ہیں جن کی فوری و آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔

بڑھتا ہوا جنسی تشدد

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 9 مئی اور 23 جون کے درمیان ریاست شمالی ڈارفر کے دارالحکومت الفاشر میں طبی مراکز پر نو حملے کیے گئے۔ اپریل 2023 سے نومبر 2024 کے درمیان دوران جنگ جنسی تشدد کے 120 واقعات اور 203 متاثرین سامنے آئے جن میں 162 خواتین اور 36 لڑکیاں شامل ہیں۔ تاہم، حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بیشتر لوگ بدنامی اور انتقامی کارروائی کے خوف اور طبی و عدالتی نظام کے غیرفعال ہو جانے کے باعث سامنے نہیں آ پاتے۔

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ ملک میں جنسی تشدد کا جنگی ہتھیار کے طور پر متواتر استعمال انتہائی ہولناک ہے۔ فریقین کو اس تشدد سے باز رہنے پر مجبور کرنے اور ذمہ داروں کا محاسبہ یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تعین کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ آیا ملک میں سنگین بین الاقوامی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے یا نہیں۔ اس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عالمی فوجداری عدالت کے دائرہ کار کو پورے سوڈان تک پھیلانے کے لیے اقدامات کرے جو فی الوقت اس کے علاقے ڈارفر تک محدود ہے۔

یو این اداروں کی طرف سے سوڈان میں ضرورت مندوں کے لیے خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔
© WFP
یو این اداروں کی طرف سے سوڈان میں ضرورت مندوں کے لیے خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔

صحت اور تعلیم تک رسائی متاثر

رپورٹ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو لاپتہ کیےجانے اور شہری آزادیوں پر قدغن کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ملک میں صحافیوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے اور انسانی حقوق کے محافظوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ اب تک کم از کم 12 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو کی موت دوران حراست ہوئی۔ 31 صحافی ناجائز قید کاٹ رہے ہیں جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔

ملک کو نقل مکانی اور غذائی قلت کے بہت بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ملک کی نصف آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور کم از کم پانچ علاقوں میں قحط پھیل چکا ہے۔ خانہ جنگی کے نتیجے میں صحت اور تعلیم تک رسائی کا حق بھی متاثر ہوا ہے جبکہ 70 تا 80 فیصد طبی مراکز غیرفعال ہو گئے ہیں اور سکول جانے کی عمر میں 90 فیصد سے زیادہ بچے رسمی تعلیم سے محروم ہیں۔

بڑے انسانی نقصان کا خدشہ

گزشتہ سال سوڈان میں کم از کم 4,200 شہریوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ ان کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ مواصلاتی مسائل کے باعث بہت سی اطلاعات سامنے نہیں آ پاتیں۔

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ خرطوم اور الفاشر پر قبضے کی جنگ میں بڑے پیمانے پر انسانی نقصان کا خدشہ ہے اور متواتر امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے لوگوں کے لیے یہ خطرہ کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں پر بلاامتیاز احتساب کے لیے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوڈان میں تشدد اور عدم احتساب کا سلسلہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

'او ایچ سی ایچ آر' کی یہ رپورٹ 27 فروری کو اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں پیش کی جائے گی۔

مکمل رپورٹ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔