کثیر الفریقی نظام کیا ہے اور ہماری دنیا کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے؟
کثیر الفریقی طریقہ کار کی اصطلاح ہے اقوام متحدہ میں تواتر سے استعمال ہوتی ہے۔ لیکن یہ تصور محض دفاتر کی راہداریوں اور کانفرنس ہال جیسی جگہوں سے مخصوص نہیں جہاں بین الاقوامی سفارت کاری ہوتی ہے بلکہ یہ عام لوگوں کی روزمرہ زندگی پر بھی کئی طرح سے اثرانداز ہوتا ہے۔
اس سے تنازعات میں کمی لانے، معیشتوں کو ترقی دینے اور دنیا بھر میں محفوظ سفر یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی اور بے قاعدہ مصنوعی ذہانت جیسے عالمگیر مسائل پر قابو پانے میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔
کثیرالفریقی طریقہ کار کا مطلب کیا ہے؟
کثیرالفریقی، کثیرالجہت یا کثیر الاطراف بنیادی طور پر جیومیٹری کی اصطلاح ہے جس کا لفظی مطلب 'کئی سمتیں' ہے۔ اب یہ بین الاقوامی سیاست اور سفارت کاری کے حوالے سے بھی استعمال ہوتی ہے جس میں مختلف نقطہ ہائے نظر اور اہداف کے حامل بہت سے ممالک کسی مسئلے پر اکٹھے کام کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا نظام بنیادی کثیرفریقی فورم ہے جہاں رکن ممالک عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے اور اہم مسائل پر قابو پانے کے لیے اجلاس، کانفرنسوں اور ملاقاتوں کا انعقاد کرتے ہیں۔

تعاون، سمجھوتہ اور ارتباط
بین الاقوامی تعلقات میں رکن ممالک کا ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے اکٹھے کام کرنا تعاون، معاہدے کرنا سمجھوتہ اور اپنی کوششوں کو منظم کرنا ارتباط کہلاتا ہے جن پر کوئی ایک ملک اکیلا قابو نہیں پا سکتا۔
یہ تینوں چیزیں اعتماد کی بحالی اور تنازعات کے پرامن حل نکالنے میں مدد دیتی ہیں۔
جدید دنیا کی تشکیل
ذرا تصور کیجیے کہ اگر کوئی ایک ملک ٹیلی فون کے ذریعے رابطوں، فضائی سفر، ترسیلات یا ڈاک کا اپنا الگ نظام وضع کر لے اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر نہ چلے تو کیا ہو گا۔ ایسے میں بین الاقوامی سفر، رابطوں اور تجارت کی صورتحال ابتر ہو جائے گی۔ کثیرفریقی طریقہ کار کی بدولت ہمارے پاس ایسے بین الاقوامی نظام موجود ہیں جو ان تمام کاموں کو ممکن بناتے ہیں۔
دنیا نے صحت سے لےکر ڈاک کے نظام اور سفر تک اپنی بہت سی روزمرہ سرگرمیوں کے حوالے سے عالمگیر ضابطے بنا رکھے ہیں اور بہت سے کثیرفریقی ادارے تخلیق کر رکھے ہیں جن میں بعض 19ویں صدی میں بنائے گئے تھے جو اب اقوام متحدہ کے نظام کا حصہ ہیں۔
اقوام متحدہ کی تخلیق سے قبل قائم کردہ دو کثیرفریقی ادارے
بین الاقوامی ٹیلی مواصلاتی یونین (آئی ٹی یو): اس ادارے کو ٹیلی گراف کا نظام باضابطہ بنانے کے لیے 1865 میں قائم کیا گیا تھا۔ اب یہ ریڈیو کی فریکوئنسی، مصنوعی سیاروں اور انٹرنیٹ کے انتظام میں مدد دیتا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او): اس ادارے کو 1919 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کو فروغ دینا، باوقار روزگار کے مواقع بڑھانا، سماجی تحفظ میں اضافہ کرنا اور کام سے متعلق مسائل پر بات چیت کو بہتر بنانا ہے۔
کثیرفریقی پالیسیوں کی تشکیل
اقوام متحدہ نے اپنے قیام (1945) سے ہی رکن ممالک کو اکٹھا ہونے اور اہم معاہدے تخلیق کرنے میں مدد دی ہے۔
جنرل اسمبلی پالیسی سازی کےحوالے سے ادارے کا مرکزی شعبہ اور بین الاقوامی مسائل پر کثیرفریقی بات چیت کے لیے مخصوص فورم ہے۔
معیشت کے حجم، آبادی یا عسکری طاقت سے قطع نظر اس کے 193 رکن ممالک میں سبھی کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ بہت کم آبادی والے یورپی ملک موناکو کا ووٹ بہت بڑی آبادی والے چین کے ووٹ کے برابر ہے۔

اقوام متحدہ کی کامیابیاں
ضابطے طے کرنا کثیرفریقی طریقہ کار کی ایک اور خصوصیت ہے۔ یہ کردار جنرل اسمبلی کا ہے جس نے تخفیف اسلحہ، انسانی حقوق اور تحفظ ماحول پر بہت سے بین الاقوامی قوانین اور معاہدے تخلیق کیے ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی تیاری اور منظوری اس کی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے جس نے انسانی حقوق سے متعلق جامع مجموعہ ہائے قوانین کے لیے راہ ہموار کی۔ دنیا کے تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف قانونی اور ثقافتی پس منظر کے حامل نمائندوں کے تیار کردہ اس اعلامیے کو جنرل اسمبلی نے 1948 میں منظور کیا تھا۔
اس کے ذریعے پہلی مرتبہ بنیادی انسانی حقوق کو بین الاقوامی تحفظ حاصل ہوا اور بہت سے نو آزاد ممالک اور جمہوریتوں کے آئین نے اسی سے تحریک پائی۔
سرد جنگ
1940 کی دہائی کے اواخر اور 1990 کے عشرے کے آغاز تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران اقوام متحدہ نے قیام امن اور تخفیف اسلحہ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
جوہری جنگ کے خطرے کے باوجود تیسری عالمی جنگ اقوام متحدہ کی جانب سے بات چیت اور فیصلہ سازی کا پلیٹ فارم مہیا ہونے کی وجہ سے ٹل گئی تھی۔
اقوام متحدہ اور آج کی دنیا
تقریباً 80 برس کے بعد آج بھی اقوام متحدہ دنیا میں کثیرفریقی طریقہ کار کے حوالے سے بنیادی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے جو قیام امن سے لے کر معاشی ترقی اور تجارت تک بہت سے میدانوں میں بین الاقوامی کو ہم آہنگ اور مربوط کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذریعے مہیا کی جانے والی انسانی امداد کی بدولت لاکھوں زندگیوں کو تحفظ ملا ہے۔ اقوام متحدہ دنیا بھر میں آفات اور مسلح تنازعات کا سامنا کرنے والے لوگوں کو خوراک، صحت کی سہولیات اور پناہ فراہم کرتا ہے۔
دنیا بھر کے ممالک کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندے، نوجوان، کاروبار اور دیگر طبقات اور شعبے بھی کثیرفریقی نظام کا حصہ ہیں۔
رکن ممالک کو دور حاضر کے عالمگیر خطرات اور مسائل سے موثر طور پر نمٹنے میں عموماً مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں تباہ کن خانہ جنگی اور سرحد پار تنازع سے لے کر ممالک کے مابین اور ان کے اندر بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور بے قاعدہ مصنوعی ذہانت و موسمیاتی تبدیلی تک بہت سے مسائل شامل ہیں۔
آنے والی دہائیوں میں اقوام متحدہ کو کثیرفریقی طریقہ کے لیے سب سے بڑے فورم کی حیثیت سے اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کے قابل بنانا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے 2020 میں رکن ممالک نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مضبوط تر عالمگیر انتظام کا تصور پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔
اس طرح 'ہمارا مشترکہ ایجنڈا' تشکیل دیا گیا جس میں قیام امن سے لے کر بین الاقوامی مالیاتی نظام، تعلیم اور پالیسی سازی میں نوجوانوں کی شمولیت جیسے شعبوں کے لیے اصلاحات تیار کی گئیں۔ ان میں اقوام متحدہ کو بہتر بنانا بھی شامل تھا اور اس کے نتیجے میں مستقبل کا معاہدہ سامنے آیا جسے عالمی رہنماؤں نے گزشتہ سال ستمبر میں منظور کیا تھا۔

کثیرفریقی نظام سے مضبوط وابستگی
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ امن اور ترقی کے لیے محض قوانین اور معاہدے کافی نہیں ہوتے۔ دنیا کو قوانین پر مبنی نظام سے مضبوط وابستگی درکار ہے جس میں اقوام متحدہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
انہوں نے دیگر بین الاقوامی اور علاقائی اداروں کے ساتھ ایک منظم کثیرفریقی نظام کی ضرورت پر زور دیا جو آزمائشوں پر پورا اترے اور ناصرف موجودہ بلکہ آئندہ مسائل اور خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔