لیبیا کو قذافی حکومت کی رخصتی کے 14 سال بعد بھی عدم استحکام کا سامنا
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا گیا ہے کہ لیبیا کو جمہوری اور خوشحال ملک بنانے کا خواب سابق قذافی حکومت کے خلاف آنے والے انقلاب سے 14 سال بعد بھی پورا نہیں ہو سکا اور ملک کو تقسیم، معاشی بدانتظامی، حقوق کی پامالیوں اور عدم استحکام کا سامنا ہے۔
ادارے میں شعبہ قیام امن و سیاسی امور کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے کونسل کو ملک کے حالات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ لیبیا میں اس وقت دیکھا جانے والا قدرے استحکام شدید خطرات سے دوچار ہے۔ سیاسی و عسکری رہنما ملکی مفاد پس پشت ڈال کر سیاسی و ذاتی فوائد کے حصول کو ترجیح دے رہے ہیں۔
انہوں نے کونسل پر زور دیا کہ وہ لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی نئی خصوصی نمائندہ ہانا ٹیٹے کو ملک میں سیاسی تعطل ختم کرانے، طویل بحران کے حل، ملکی ادارے متحد کرنے اور نئے انتخابات کے انعقاد میں مدد دینے کے کام میں تعاون مہیا کریں۔
یاد رہے کہ لیبیا ایک دہائی سے دو متحارب حکومتوں میں منقسم ہے جن میں قومی اتحاد کی حکومت (جی این یو) کی شمال مغرب میں عملداری ہے جبکہ قومی یکجہتی کی حکومت (جی این ایس) ملک کے مشرقی علاقے میں حکمران ہے۔ ملک میں قومی انتخابات امیدواروں کی اہلیت پر تنازعات کے باعث تین سال سے ملتوی ہیں۔
سیاسی عمل بحال کرنے کی کوششیں
روزمیری ڈی کارلو نے کونسل کو بتایا کہ ملک میں اقوام متحدہ کا مشن (یو این ایس ایم آئی ایل) سیاسی عمل کی بحالی کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ اس نے حالیہ عرصہ میں ایک مشاورتی کمیٹی قائم کی ہے جو قومی انتخابات کی راہ میں حائل متنازع مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔
یہ کمیٹی 20 ارکان پر مشتمل ہے جن میں قانونی اور دستوری ماہرین بھی شامل ہیں جبکہ اس میں ایک تہائی سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ لیبیا کی سیاسی جماعتوں، سماجی تحریکوں، خواتین اور نوجوانوں کے گروہوں اور دیگر نے کمیٹی کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کا اہم موقع قرار دیا ہے۔
مشمولہ مکالمے کے لیے سہولت
انڈر سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ مشن لیبیا کے لوگوں کے مابین ایک منظم مکالمے کا انعقاد بھی کر رہا ہے جس کا مقصد تنازع کے دیرینہ محرکات سے نمٹنے اور ملکی مستقبل کے لیے مشمولہ سوچ پیدا کرنا ہے۔
علاوہ ازیں، مشن کی جانب سے لیبیا کے معاشی ماہرین کے مابین مشاورتوں میں بھی سہولت مہیا کی جا رہی ہے تاکہ مضبوط معاشی انتظام کے لیے ترجیحات کا تعین ہو سکے اور اس راہ میں رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مسائل کے حل سامنے لائے جا سکیں۔
تقسیم اور مسابقت
انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں پر تسلط کے لیے پائی جانے والی تقسیم اور مسابقت سیاسی و معاشی منظرنامے پر غالب ہے۔ ملک میں متفقہ بجٹ لانے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور مشن کے تمام متعلقہ فریقین سے رابطوں کے باوجود اخراجات کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
مرکزی بینک کو ملک کی مالیاتی صورتحال مستحکم بنانے میں مدد دینا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں، ہائی کونسل آف سٹیٹ کے صدر کے عہدے پر تنازع بھی چھ ماہ سے حل طلب ہے اور منقسم کونسل اپنا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہی۔

قومی مفاہمت کو خطرہ
انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ملک میں سیاسی تقسیم بھی قومی مفاہمت کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ ہے۔ گزشتہ دسمبر میں مشن نے صدارتی کونسل، ایوان نمائندگان اور ہائی کونسل آف سٹیٹ کو اس مسئلے پر ایک قانون کا مسودہ تیار کرنے میں سہولت دی تھی۔ تاہم، ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے اس میں ترامیم پیش کیے جانے کے نتیجے میں قومی مفاہمتی کمیشن کے خودمختارانہ کردار پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔
رواں مہینے کے آغاز میں افریقن یونین کے ذریعے ایک مفاہمتی چارٹر پر اتفاق رائے پایا گیا جس کی 14 فروری کو منظوری دی گئی۔ اگرچہ ملک کے بعض سیاسی فریقین نے اس کی حمایت کی ہے لیکن ایسے بھی ہیں جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ مشن تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ اس معاملے پر رابطے میں ہے۔
تارکین وطن اور اجتماعی قبریں
انڈر سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ملک میں ناجائز گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کا رجحان تشویش ناک ہے اور مارچ 2024 سے اب تک 15 افراد کی دوران حراست ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
ملک میں تارکین وطن اور پناہ کے خواہش مند لوگوں بشمول بچوں کو انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے جنہیں تشدد اور ظالمانہ و غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لیبیا میں حالیہ دنوں تارکین وطن کی اجتماعی قبروں کی دریافت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان واقعات سے ملک کے راستے مہاجرت اختیار کرنے والوں کو درپیش سنگین خطرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے ایسے واقعات کی مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔