انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اقوام متحدہ اور دوسرے کثیرالفریقی اداروں کو بڑے امتحان کا سامنا، ٹام فلیچر

امدادی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اہلکار ٹام فلیچر غزہ کے لوگوں سے مل رہے ہیں جن کے گھر جنگ میں ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
© UNOCHA/Olga Cherevko
امدادی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اہلکار ٹام فلیچر غزہ کے لوگوں سے مل رہے ہیں جن کے گھر جنگ میں ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔

اقوام متحدہ اور دوسرے کثیرالفریقی اداروں کو بڑے امتحان کا سامنا، ٹام فلیچر

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی امدادی رابطہ کار ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد بنائے جانے والے بین الاقوامی نظام بشمول اقوام متحدہ اور کثیرفریقی اداروں کو اپنے قیام کے بعد سب سے بڑے امتحان کا سامنا ہے۔

جنرل اسمبلی کی بین الاداری قائمہ کمیٹی (آئی اے ایس سی) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ امدادی برادری کو مالی وسائل، اخلاقیات اور قانونی جواز کا بحران درپیش ہے۔ دنیا بھر میں امدادی مقاصد کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل میں کمی سے ضرورت مند لوگوں، امدادی شراکت داروں اور اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسے حالات میں امدادی برادری کو پرسکون، دلیر، اصولوں پر کاربند اور متحد رہنا ہو گا۔

Tweet URL

مشکل وقت میں بہتری کے لیے کئی دہائیوں پر مشتمل امدادی اداروں کی غیرمعمولی پیش رفت سے اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک درست کام ہے اور اس میں مدد دینے والے اب بھی موجود ہیں۔ تاہم مدد کی فراہمی کا نظام مشکلات سے دوچار ہے اور ان حالات میں تیزتر اور موثر اقدامات درکار ہیں۔

'آئی اے ایس ای' کا قیام 1990 میں عمل میں آیا تھا اور اسے دنیا بھر میں انسانی امداد کی فراہمی کے حوالے سے رابطہ فورم کی حیثیت حاصل ہے۔

چار نکاتی منصوبہ

ٹام فلیچر نے کہا کہ مستقبل میں امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے چار ترجیحات کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ زندگیوں کو تحفظ دینا ضروری ہے۔

امدادی برادری کو آزاد اور غیرجانبدار ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ایک سمت اختیار نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان لوگوں کا ساتھ دینا ہے جو ضرورت مند ہیں۔

دوسری بات یہ کہ نئے دلیرانہ لائحہ عمل کے تحت امداد کی فراہمی کے لیے ضابطے کی رکاوٹوں میں کمی لانا ہو گی۔ عطیہ دہندگان کو بھی اپنا کام سادہ رکھنا ہو گا اور امداد کی فراہمی کے حوالے سے موثر اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔

رابطہ کار نے بتایا کہ انہوں نے دنیا بھر میں 100 ملین ضرورت مند لوگوں تک انسانی امداد پہنچانے کے طریقوں کی نشاندہی کے لیے کام شروع کر رکھا ہے۔

نجی شعبے کے ساتھ شراکت

انہوں نے کہا کہ امدادی اداروں کے سربراہوں کو امداد کے روایتی ذرائع اور حکومتوں پر انحصار کرنے کے بجائے نئے شراکت دار تلاش کرنا ہوں گے۔ اس میں نجی شعبے اور عالمی بینک کے ساتھ حقیقی شراکت بھی شامل ہے۔

دنیا بھر میں اربوں لوگ دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں اور انتہائی ضرورت مند لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے خواہش مند ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے فراہم کردہ امدادی وسائل میں آنے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے عوامی سطح پر مہم چلانا ہو گی جس میں ہر ملک سے 0.7 فیصد وسائل لینے کا ہدف مقرر کرنا چاہیے۔

امدادی اداروں کے مابین ان کے کام کے دائرہ کار سے متعلق اختلافات کا خاتمہ اور ان کی قیادت کو بااختیار ہونا چاہیے۔

تیسری ترجیح کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر امدادی شراکت داروں کو مزید اختیار ملنا چاہیے کہ وسائل میں کٹوتیوں سے یہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور ان کے حوالے سے جواب طلبی کو بھی بہتر بنایا جانا چاہیے۔

چوتھی ترجیح پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امدادی کارکنوں کو مزید موثر طور سے اپنے کام کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔

بڑا مقصد اور مضبوط تحریک

ٹام فلیچر کا کہنا تھا کہ مسلح تنازعات میں شہریوں اور امدادی کارکنوں پر حملوں کو بند ہونا چاہیے اور ان کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔ دوسروں تک امدادی سرگرمیوں کے اثرات سے متعلق واضح معلومات پہنچانا اور یہ بتانا ضروری ہے کہ اس معاملے میں بے عملی کی قیمت کیا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں امدادی اداروں اور کارکنوں کو مالی وسائل کی قلت، کام کے بوجھ اور حملوں کا سامنا ہے۔ تاہم اس کے باوجود ضرورت مند لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے امداد کی فراہمی ضروری ہے۔ یہ بہت بڑا مقصد اور بہت مضبوط تحریک ہے۔