غزہ: حالیہ جنگ بندی میں 148,000 فلسطینیوں کو نقد امداد کی فراہمی
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے جمعہ کو جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں امدادی کارروائیاں شمال سے جنوب تک اہم امداد کے ساتھ لوگوں تک پہنچ رہی ہیں، جن میں نقد رقم بھی شامل ہے۔
جنوری کو جنگ بندی کے بعد سے تقریباً 148,000 فلسطینیوں نے نقد امداد سے فائدہ اٹھایا ہے۔ جن میں معذور افراد ، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے اطلاع دی ہے کہ جنگ بندی کے نافذ ہونے کے بعد غزہ بھر میں منڈی کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ اشیاء کی قیمتیں کم ہونے کے ساتھ ساتھ اشیاء وافر مقدار میں بھی دستیاب ہیں.
غذائی رسد میں بہتری
مزید برآں جولائی 2024 کے بعد غزہ میں پہلی بار پانچ سال سے کم عمر کے بچے، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کی خوراک زیادہ متنوع ہوئی ہے۔ وہ زیادہ پھل، سبزیاں، انڈے اور دودھ کی مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں۔
انسانیت کے خیرخواہ بھی غزہ میں لوگوں کو پناہ دینے میں مدد فراہم کررہے ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے (انروا) کی 120 پناہ گاہوں میں ہزاروں خاندانوں میں خیمے، ترپال، کمبل، گدے، کپڑے اور کھانے پکانے کی اشیاء تقسیم کر رہے ہیں۔
مغربی کنارے پر کشیدگی
دوسری جانب اوچا مغربی کنارے کے شمالی حصے میں اسرائیلی افواج کی جاری کارروائیوں پر تشویش میں مبتلا ہے 21 جنوری کو شروع ہونی والی یہ کارروائیاں 2000 کی دہائی کے اوائل کے بعد سے وہاں کی سب سے طویل ترین کارروائیاں ہیں۔
اوچا نے خبردار کیا کہ اسرائیلی آباد کاروں کا تشدد بھی جاری ہے۔ 11 اور 17 فروری کے درمیان تشدد کے 34 واقعات پیش آئے جو اوسطاً تقریباً پانچ واقعات فی دن بنتے ہیں جن میں آباد کار ملوث اور اس کے نتیجے میں جانی یا مالی نقصان ہوا ہے۔
ایک واقعے میں اسرائیلی آباد کاروں نے تلکرم گورنری میں زرعی پانی کے پائپ کو کاٹ دیا، جس سے ایک درجن فلسطینی کسانوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوا۔
اسی عرصے کے دوران بیت لحم کے المنیہ گاؤں کے قرب و جوار میں 40 فلسطینیوں کو گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیلی آباد کاروں کے مسلسل حملوں کے بعد بے گھر کیا گیا۔
اسرائیلی حکام کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں فلسطینیوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ بن رہی ہیں، جس سے بازاروں، کام کی جگہوں، ہنگامی خدمات اور صحت اور تعلیمی سہولیات تک رسائی متاثر ہو رہی ہے۔
2023 کے شروع سے مغربی کنارے میں تقریباً 2,300 فلسطینیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، جن میں 1,100 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ سب اسرائیلی حکام کی طرف سے بڑھتے ہوئے تشدد اور پابندیوں کی وجہ سے ہوا۔
انسانی باقیات کا مسئلہ
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے کہا کہ سکریٹری جنرل کو ان اطلاعات پر گہری تشویش ہے کہ غزہ میں ایک اسرائیلی یرغمالی شیری بیباس کی باقیات جنہیں جمعرات کو ان کے بچوں کی باقیات کے ساتھ واپس کیا جانا تھا تاحال لاپتہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سکریٹری جنرل اس بات پر زور دیا ہے کہ مرنے والوں کے وقار کا احترام کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی باقیات کو بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے قانون کے مطابق ان کے اہل خانہ کو واپس کیا جائے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر رہائی انتہائی وقار کے ساتھ اور انسانی اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔
سیکرٹری جنرل نے فریقین سے اپنے تمام وعدوں کی پاسداری کرنے اور جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد جاری رکھنے کی اپنی اپیل کی تجدید کی۔